سب تمنائیں ہوں پوری کوئی خواہش بھی رہے
چاہتا وہ ہے محبت میں نمائش بھی رہے
آسماں چومے مرے پنکھ تری رحمت سے
اور کسی پیڑ کی ڈالی پہ رہائش بھی رہے
اس نے سونپا نہیں مجھ کو مرے حصے کا وجود
اس کی کوشش ہے کہ مجھ سے مری رنجش بھی رہے
مجھ کو معلوم ہے میرا ہے وہ میں اس کا ہوں
اس کی چاہت ہے کہ رسموں کی یہ بندش بھی رہے
موسموں سے رہیں وشواسؔ کے ایسے رشتے
کچھ عداوت بھی رہے تھوڑی نوازش بھی رہے