کٹ جائے غم نہیں ،نہ جھکے گا کبھی یہ سر
سجدہ کسی یزید کو ہوگا نہیں ادھر
مثل حسین ہم کو شہادت تو ہے قبول
ظالم کے حکم کا کبھی لیتے نہیں اثر
منصور بن کے دار تک آئینگے با خوشی
کلمہ حق کہیں گے بلا خوف و بے خطر
لکھتے رہینگے خوں سے بغاوت کی داستاں
عزم و یقیں میں رکھتے ہیں فولاد کا جگر
تم روک نہ سکو گے اندھیروں سے راستہ
آغاز کردیا ہے اجا لوں نے اب سفر
پیغام حق کی گونج سمٹتی نہیں کبھی
گونجے گی بازگشت کی صورت شہر شہر
ہر گام پر کھڑے ہیں یہں بن کے سا ئباں
تپتی ہوئی دوپہر میں الطاف کے شجر
جب انقلاب سحر کی آئیگی صبح نو
امن وسکوں سے چمکے گا قریہ،نگر نگر
جب بے کسوں کے خون سے آئیگا انقلاب
ظالم کو پھر پیاہ بھی نہ دیگی یہاں قبر
بڑھتے چلو کہ فاصلہ زیادہ نہیں رہا
آنے لگی ہے صاف وہ منزل یہاں نظر
جب تک سحر نہ لائیگے بڑھتے رہینگے ہم
تاریکیوں سے خوف زدہ ہم نہیں اشہر