ترے کوچے کی بہاروں کے موسم
آس کا مسکن
مضطرب روحوں کا گلشن ٹھرے
سوچتا ہوں
مری وفا کے مروارید
ترے دامن سے کیوں بچھڑے
کیوں راکھ ہوءے
کیوں خاک ہوءے
ترے وعدوں کے سیپ
دکھ کی کتھا کیوں کہتے ہیں
پھر کوئ جیون بستی سے کہتا ہے
ایسا تو ہوتا ہے
ایسا تو ہونا ہے
یہ دنیا سراب کا جنگل
جو کل تھا آج کہاں
کل بےکل تھا بےکل رہے گا
جیون بستی کی یہی روایت رہی ہے
یہی دستور رہے گا