سفرِ رائیگاں
Poet: فاروق نور By: فاروق نور, Burhanpurزندگی کے سفر میں کئی موڑ ہیں
 اور کئی راستے
 انگنت منزلیں 
 جس پہ انسان بے راہ روی کا شکار 
 روزِ اول سے ہے 
 سیکڑوں رہنما آئے تبلیغ کی
 راہ حق کی مگر 
 راہگیروں کو دشواری در پیش ہے 
 ہر قدم پر یہاں
 ایسی دشواری جس کا مداوا نہیں 
 انگنت خواہشیں اور سپنے لیے 
 دربدر ٹھوکریں کھاتا تھکتا نہیں ہے یہ انسان 
 جس کو خدا نے خلیفہ بنایا 
 خلافت عطا کی 
 مگر اس نوازش پہ کب مطمئن ہے 
 یہ انسان آخر 
 وہی اپنے سپنے لیے پھر رہا ہے
 وہ سپنے کہ تعبیر جن کی نہ کوئی نہ کوئی حقیقت
 فقط ایک دھن ہے
 اسی دھن میں چلتا چلا جا رہا ہے
 اسی راہ پر اور اسی منزلوں کی طرف 
 جس کا کوئی نشاں ہے نہ کوئی پتہ ہے
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






