صدمات کا مداوا شبیر کے سہارے
ہر بوجھ ہے گوارا شبیر کے سہارے
جب حوصلے ہوئے شل اور پاؤں ڈگمگائے
رحمت نے پھر پکارا شبیر کے سہارے
دفتر عمل کا جس کا رد ہو گیا حشر میں
جنت کو وہ سدھارا شبیر کے سہارے
جس نے عدو کے آگے گردن کبھی نہ خم کی
بنا رب کا وہ دلارا شبیر کے سہارے
ہر سو مہیب موجیں اور بیڑا زندگی کا
قلزم میں ہے اتارا شبیر کے سہارے
ٹوٹے ہوئے دلوں نے پھر سے مجھے صدا دی
ہوں پھر سے بزم آرا شبیر کے سہارے
میں پا شکستہ راہی بٹا ہوں کرچیوں میں
منزل ملے خدارا شبیر کے سہارے
میں ہوں غلام شاہ کا میرا اعتماد قائم
کلفت بھی ہے گوارا شبیر کے سہارے