سمجھا ہے کیا
غلامی میں جب رہتے تھے ہم
غلامی کی ذہنیت کو سمجھا ہے کیا
آزادی کی جب تھے فضا میں
وطن کوہم سب نے سمجھا ہے کیا
محبتوں کےجال بچھاتے ہیںوہ
دھوکے کو ہم نے سمجھا ہے کیا
سیاست،سازش اور کہیں مفاہمت
شطرنج کی چالوں کو سمجھا ہے کیا
ارض پاک کے دامن کو تار تار کرکے
خون نا حق کو انھوں نے سمجھا ہے کیا
اے ریاض ! ایمان یہاں ہے کیا
سنگدل حکمرانوں کو کبھی دیکھا ہے کیا