سورج ڈوب رہا ہے
Poet: maqsood hasni By: maqsood hasni, kasurمیں جو بھی ہوں
 چاند اور سورج کی کرنوں پر
 میرا بھی تو حق ہے
 دھرتی کا ہر موسم
 خدا کا ہر گھر
 میرا بھی تو ہے
 قرآن ہو کہ گیتا
 راماءن کا ہر قصا
 گرنتھ کا ہر نقطا
 میرا بھی تو ہے
 تقسیم کا در
 جب بھی کھلتا ہے
 لاٹ کے دفتر کا منشی
 بارود کا مالک
 پرچی کا مانگت
 عطا کے بوہے 
 بند کر دیتا ہے
 رام اور عیسی کے بول
 ناچوں کی پھرتی
 بے لباسی میں رل کر 
 بے گھر بےدر ہوءے ہیں
 دفتری ملاں کےمنہ میں
 کھیر کا چمچہ ہے
 پنڈت اور فادر 
 ہاں ناں کے پل پر بیٹٹھے
 توتے کو فاختتہ کہتے ہیں
 دادگر کے در پر ساءل
 پانی بلوتا ہے
 مدرسے کا ماشٹر
 کمتر سے بھی کمتر
 کالج کا منشی
 جیون دان ہوا کو ترسے
 قلم کا دھنی
 غلاموں کے سم پیتے
 برچھوں کی زد میں ہے 
 سب اچھا کا تلک
 سر ماتھے پر رکھنے والے
 گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے
 طاقت کی بیلی میں
 کربل کربل کرتے یہ کیڑے
 ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں
 مساءل کی روڑی پر بیٹھا
 میں گونگا بہرا بے بس زخمی
 نانک سے بدھ
 لچھمن سے ویر تلاشوں
 مدنی کریم کی راہ دیکھوں
 علی علی پکاروں کہ
 سورج ڈوب رہا ہے
 
  
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






