ڈگریوں میں بٹ رہا ہے سیاست کا ضمیر
اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے قوم کی تقدیر
بے بسی میں کٹ رہا ہے وقت میرے لوگوں کا
پیاس آنکھوں میں چھپی اور بھوک کی زنجیر
ناں علم ہے اور ناں قلم بس ادا ہے شان کی
کیسے لوٹیں دونوں ہاتھوں کر رہے تدبیر
خواب آنکھوں سے یہ نوچیں اپنی جھولی کو بھریں
بے ضمیری شیوہ ان کا اور لالچ ہے جاگیر
اٹھاؤ ہاتھ مانگو رب سے وقت یہ کٹ جائے گا
پھر کھلیں گے در خوشی کے پوری ہونگیں تعبیر