شا عر اپنے قلم سے کلام لکھتا ہے
جبر لکھتاہے صبر لکھتاہے
شبنم کا قطرہ
اورسپاہی کی تلوار لکھتا ہے
ہاں
شاعرکلام لکھتا ہے
محبت لکھتاہے جدائی لکھتا ہے
وصل کی مہربانیاں بے مثال
محبوب کو قاتل بھی لکھتاہے
روز بکنے والی عورتوں کے آنسؤں سے
غربت لاچاری بے کسی لکھتا ہے
ہاں
شاعر کلام لکھتا ہے
کا فر ہے
صنم کو خدا لکھتا ہے
بت پر ست ہے انسان
انسانوں کو پوجھتا ہے
پھول کو تیر
نگاہ کو وار لکھتاہے
ہاں
شاعر کلام لکھتاہے
غریب کو لاچار
امیر کو مکار لکھتا ہے
تخت کاسیاست حسن ہے
بادشاہ کو گدا لکھتا ہے
روزبلک بلک کرسو گئی کسی کی اولاد بھو کی
یہ انسان کو چالباز لکھتا ہے
ہاں
شا عر کلام لکھتا ہے
شراب کو جوانی یار کبھی یار کو شراب
نشو ں کا خمار لکھتا ہے
کبھی روٹھی ہوئی صبح کو بادل میںچھپا دیکھ کر
کھبی سورج کا کمبل تو کبھی بے کا ر لکھتا ہے
ہاں
شاعر کلام لکھتا ہے