شوہر بیٹا باپ اور بھایٔ شیشے جیسے نازک رِشتے
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, Reading UKآنکھیں تیری کتنی سندر جیسے کویٔ گہرا ساگر
جی چاہے چھپ کے رہ جاؤں میں تیری آ نکھوں کے اندر
شوہر بیٹا باپ اور بھایٔ شیشے جیسے نازک رِشتے
جب جو چاہے بے گھر کر دے اپنا کب ہے عورت کا گھر
توُ نے درد دیا جب مجھ کو شاید تجھ کو علم نہیں تھا
کتنا اونچا لے جاۓ گی مجھ کو اِک دِن تیرے ٹھوکر
جب کویٔ معصوم سی لڑکی دیکھوں تو ڈر جاتی ہوں
سونے کے پنجرے میں اُس قید نہ کر لے کویٔ ساحر
جانی پہچانی خوشبو سے آج فضایںٔ پھر مہکی ہیں
آیٔ ہیں پھر شوخ ہوایںٔ تیرے پیراہن کو چھو کر
سورج کی روپہلی کرنیں کرتی ہیں بیدار ہمیشہ
دستِ صبا دیتا ہے دستک روز تِری کھڑکی پہ آ کر
منزل تیری دور ہے عذراؔ رستہ بھی آسان نہیں
آگے غم کی گہری کھایٔ پیچھے دُکھ کا ایک سمندر
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






