کبھی خواب بنتی تھی دنیا، کبھی ساز و نغمہ کی محفل
اب ہر ایک دل ہے خموش، ہر نظر ہے گہری و مضمحل
کہاں وہ صبحیں کہ نرماہٹ میں چپکے راز چھپے ہوتے
کہاں وہ شامیں کہ تنہائی میں بھی کچھ ساز بجے ہوتے؟
کہاں گئی وہ ہنسی فضا کی؟ وہ نرمی، وہ چہکار کہاں؟
ہر شے میں کیوں اک بیزاری ہے؟ ہر منظر میں انکار کہاں؟
اے وقت! تجھے کیوں فرصت ہے صرف مٹانے کی؟
تُو دیتا کیوں ہے خواب ہمیں، پھر چھیننے کی رسمیں کیوں؟
ہم نے چراغ جلائے تھے، دیواروں کو گواہ کیا
پھر بھی اندھیروں سے کیسا ہے تیرا خوں رنگ ربطِ وفا؟
ہم نے کتابیں لکھیں، نغمے گائے، ساز بنائے
اور تیری آندھی نے ہر شے کو بے نام کرایا
کیا تجھ کو ہماری لگن کی قسم نہ تھی؟
کیا ہم فقط ایک لمحۂ خاموشی کے قابل تھے؟
اے فطرت! تُو بھی چپ کیوں ہے؟ کیوں نہ جواب دیتی ہے؟
کیا تیرے اندر بھی اب کوئی زندہ نغمہ نہیں بچا؟
کبھی ہم نے تجھ سے رنگ چرا کر، خوشبو سے خواب بنائے،
آج تُو ہمیں خالی ہاتھ، بن موسم، کیوں لوٹائے؟
یہ دنیا کیوں زخموں کی منڈی بن کر رہ گئی؟
جہاں ہنسی بھی تجارتی، اور اشک بھی نیلامی ہو گئے؟
اے دل! تُو کب تک صبر کرے؟ کب تک صدا گُم رہنی ہے؟
کب کوئی سننے والا ہو گا؟ کب یہ صدی ٹھہری ہو گی؟