تمام قصے وفاؤں کے اب رقم ہونگے
کہ جو سنیں گے سبھی دیدہ نم ہونگے
صداقتوں کا علم تھامتے ہوئے جو کٹے
وہ بازو کٹ کے ابھرتے ہوئے علم ہونگے
جو سر غرور سے اکڑے ہوئے تھے ماضی میں
وہ کبر و جبر کے مارے ہوئے قلم ہونگے
یہ معرکہ حق و باطل کے درمیاں ہے یہاں
وہی بچیں گے جو خود آگے ہم میں ضم ہونگے
تمہیں خدا نے کیا ہم پہ رہنما قائد
تمہارے حکم پر یہ سر ضرور خم ہونگے
مجھے یقیں ہے خدائے رحیم و برتر سے
تمام رنج والم اپنے اب ختم ہونگے
جو رب نے چاہا تو وہ دن ضرور آئیگا
ہمارے درمیاں سالار ذی حشم ہونگے
یقین مجھ کو قائد خدا کی ذات سے ہے
تمہارے چاہنے والے کبھی نہ کم ہونگے
وہ جنکے جبر کا ہر شخص یہاں گواہ ہے اشہر
ان ہی کے جسموں پر قدرت کے اب ستم ہونگے