ویسے تو سب کہتے ہیں کہ مجھ میں عقل نہیں
کوئی بات مجھ سے کرنا ذرا بھی سہل نہیں
کم عقل ہوں سمجھداری سے مجھے کام نہیں
یہ صفت میری صنف میں کچھ عام نہیں
کولہو کا بیل بن کے گزاروں میں زندگی
محنت سے اپنی دوسروں کی سنواروں میں زندگی
ہوں پیر کی جوتی مجھے بتلایا گیا ہے
دستِ نگر ہوں اسقدر جتلایا گیا ہے
گھر میں میری فریاد جب سنتا نہیں کوئی
سچے دل سے جب میرا بنتا نہیں کوئی!!
ایک بات منوانے کو کروں سو سو میں بہانے
اس صنف کے دکھڑے ہیں یہ سو سال پرانے
اس دور میں مردوں کی جب سنتا نہیں کوئی
اس کم عقل فرد کی کیسے سنے کوئی ؟
جو احتجاج ہوگا تو پھر جوتے بھی لگیں گیں
سو طرح کے کردار پہ الزام لگیں گے
پھر لوگ اسی بات پر الزام دھریں گے
پر طرح سے عورت کو پھر بدنام کریں گے
احوال اس بدنامی کا چسکے سے سنیں گے
دو ۔۔ چار بڑھا کر پھر کہیں اور کہیں گے
بے فائدہ رہے گا یہ اقدام ہمارا
سمجھو اگر تو ہے یہ کام تمہارا
جب مرد ہی چاہیں گے تو آئے گا انقلاب
عورت کے رخ پہ رہنے دو تم اُس کا یہ نقاب
یہ کام ہے مردوں کا اسے مرد کریں گے
جماعت نہ کرسکی تو اسے فرد کریں گے
یہ کام ہے مردوں کا اسے مرد کریں گے
مرد کریں گے ہاں اسے مرد کریں گے