صلہ یہی ہے کیا تجھ سے آشنائی کا
مجھے دیا ہے جو غم یہ بے وفائی کا
تری یہ بےرخی کیارنگ لےکےآئی ہے
سزا سے کم تو نہیں فیصلہ جدائی کا
صبح کی پہلی کرن اوریہ ٹھنڈی پون
سنویہ وقت تھا پیار کی گہرائی کا
ہجر کاوقت ہے ظاہر و باطن چھوڑو
ستم کیاکافی نہین میری جگ ہنسائی کا
چھواتھا تو نے کبھی چھوڑکے جانے والے
زخم وہ آج بھی رستا ہے یوں کلائی کا
کہ جیسے خون کے آنسو بہاتی ہے شمع
کہ جیسے وقت ہو پروانے کی ودائی کا
تری تصویر کو سینے سے لگاکے ہم نے
نہ پوچھ کیسے گذ ار ا لمحہ تنہائی کا
دیاتھاجیسے دل اس نے لوٹا بھی دیا
زمانہ آ ج نہیں ہے کو ئی بھلائی کا
اشک بہتے ہیں تو کیا دل کا لہو بن کے غزل
گلہ ہے ایک قسم کا ستم روائی کا