صلیب سنگ پہ لکھا میرا فسانہ گیا
میں راہگزر تھا مھجے روند کر زمانہ گزر گیا
گلی میں اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق
بلکتی شام سے سب دھوپ کا خزانہ گیا
کسے خبر کہ وہ روانہ ہو بھی سکا کہ نہیں
تمہارے شہر سے جب اس کا آب و دانہ گیا
میں ایک ڈولتا ساگر مجھے اٹھاتا کون
گھٹا اَٹھا کے چلی تھی مگر چلا نہ گیا