اے صبا لے کے تو آ طیبہ کی پیاری خوشبو
دل مہک اٹھے بسے رُوح میں نیاری خوشبو
’’صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گلزار ‘‘
کیا ہی پھیلاتی ہے جنت کی وہ کیاری خوشبو
ان کی نکہت کے تصور میں بھی خوشبو ہوگی
یارو ! پھیلاتی ہے جب گرد سواری خوشبو
خوشبوئے گل کی ہو کیوں خواہش ہمارے دل میں
ہم پہ طاری ہے جب آقا یہ تمہاری خوشبو
اپنے عصیاں کی نہ بُو باس بھی رہ پاے گی
جب شفاعت کی وہ پھیلائیں گے پیاری خوشبو
’’ہائے کس وقت لگی پھانس الم کی دل میں ‘‘
کہ رہی دور مُغیٖلان کی پیاری خوشبو
سبز روضہ کبھی دیکھوں کبھی منبر دیکھوں
اے مُشاہدؔ ہے مری رُوح پہ طاری خوشبو