ظلمتِ شب ٹھہ گئی ہے
دل میں وحشت اترگئی ہے
نہیں آثارِ سحر کوئی
رات کب کی گزر گئی ہے
موت سے کیا گلہ ، یہاں تو
زندگی ہاتھ کر گئی ہے
سبک رفتار تھی جوانی
کب یہ آئی کدھر گئی ہے
آج کی بات ڈالی کل پر
کل بھی یونہی گزر گئی ہے
بد دعا تھی کسی کی شاید
ہر دعا بے اثر گئی ہے
نہ لگی آنکھ میری، جب سے
تجھکو چھو کر نظر گئی ہے
دوستوں کی ہے مہربانی
دشمنوں کو خبر گئی ہے
آج بچھڑوں کی یاد آئی
آج پھر آنکھ بھر گئی ہے