عجیب تجربہ آنکھوں کو ہونے والا تھا
بغیر نیند میں کل رات سونے والا تھا
تبھی وہیں مجھے اس کی ہنسی سنائی پڑی
میں اس کی یاد میں پلکیں بھگونے والا تھا
کسی بدن کی صدا نے بچا لیا مجھ کو
میں ورنہ روح کے جنگل میں کھونے والا تھا
یہ سوچ سوچ کے اب تو ہنسی سی آتی ہے
شروع عشق میں کتنا میں رونے والا تھا
کبھی ہوئی نہ ملاقات شہر سے میری
میں جب بھی سو کے اٹھا شہر سونے والا تھا
اگر یہی ہے محبت تو ہونے والی تھی
وہ ملنے والا تھا مجھ کو میں کھونے والا تھا
مجھے نکال دیا تعزیت کے جلسے سے
کہ بس وہاں میں اکیلا ہی رونے والا تھا
یہ میرا دیدۂ تر خشک ہو گیا ورنہ
مرے لیے بھی یہاں کوئی رونے والا تھا
اس آئنے نے اصولوں پہ ضد نہ کی کہ ورنہ
میں اپنے آپ کے برعکس ہونے والا تھا
کسی نے محفل دنیا کی دھن بدل ڈالی
زمانہ جب مرا ہم رقص ہونے والا تھا
وہاں بس اک دل خالی تھا اور میاں احساسؔ
نہ عشق ان کو ہوا تھا نہ ہونے والا تھا