عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جان مراد اب کدھر ہائے تیرا مکان ہے
بزم ثنائے زلف میں میری عروس فکر کو
ساری بہار ہشت خلد چھوٹا سا عطر دان ہے
عرش پہ جا کے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگایئے تیری ہی داستان ہے
اک تیرے رخ کی روشنی ، چین ہے دو جہان کی
انس کا انس اسی سے ہے ، جان کی وہی جان ہے
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے
گود میں عالم شباب ، حال شباب کچھ نہ پوچھ
گلبن باغ نور کی ، اور ہی اک اٹھان ہے
تجھ سا سیاہ کار کون ، ان سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں ، دل یہ تیرا گمان ہے
پیش نظر وہ نو بہار ، سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ، ہاں یہی امتحان ہے
شان خدا نہ ساتھ دے ، ان کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تاز میں جسے ، نرم سی اک اڑان ہے
بار جلال اٹھا لیا ، گرچہ کلیجہ شق ہوا
یوں تو ماہ سبز رنگ ، نظروں میں دھان پان ہے
خوف نہ رکھ رضاؔ ذرا ، تو تو ہے عبد مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے ، تیرے لئے امان ہے