تم عام آدمی ہو وطن کی تم آن ہو
تم معتبر ہو تم ہی وطن تم ہی قوم ہو
آگے بڑھو اور ان کو مٹا دو فنا کرو
جو ننگ دیں ہو ننگ وطن ننگ قوم ہو
گدی سے کھینچو اس کی زباں جھوٹ بولے تو
بے حس ہو رہنما تو سر دار کھینچ دو
وعدے نبھانے والوں کو سر پہ بٹھا رکھو
وعدہ خلاف ہو تو حکومت کا حق نہ دو
فرمان کوتوال شہر آج کا یہ ہے
دنیا سے ہر غریب کی ہستی مٹا ہی دو
رسم کہن تغیر اوقات ہی تو ہے
بدلے گا وقت چہروں کو اک بار بدلو جو
کاغذ کا ایک پرزہ جو طاقت تمہاری ہے
یہ گڑگڑائیں بھی تو انہیں بھیک میں نہ دو
ان سے حساب لو جو انہیں دے چکے ہو تم
چھینو تمہارے نام سے لوٹا انہوں نے جو
جو رہبروں کے بھیس میں رہزن تمہیں ملے
اس کی قبائے قیمتی کی دھجیاں کرو
افلاس و بھوک تم کو جو دیتا ہے رہنما
پیروں تلے سے اس کے زمیں اپنی کھینچ لو
آئین کی محافظت کے نام پہ اگر
آئین توڑے کوئی تو زنداں میں ڈال دو
مذہب کے نام نفرتیں جو بانٹتے پھریں
ان غار پیٹ والوں کی منطق کو مت سنو
سرمایہ دار کب ہوا ساتھی غریب کا
نہ منتخب کرو نہ حکومت ہی اس کو دو
حاکم یہ سارے جھوٹ کے حرفوں سے ہیں بنے
سب اہل اقتدار تمہارے دروغ گو
دو گز زمیں دفن کو تمہیں دے نہیں رہے
ان کے سروں سے محلوں کی چھت تم بھی چھین لو
اغیار کے نمائندے جو حکمران ہیں
کھینچو سڑک پہ ان کو وطن سے نکال دو
مل مالکوں وڈیروں کے بے رحم راج کا
اب خاتمہ قریب ہے ہمت جو تم کرو