ہر سوال بہت ہی عجیب وہ پوچھتا ہے
ہر ایک بات کا مجھ سے سبب وہ پوچھتا ہے
ہوں جس کے لئے جیتی اور جس کے لئے مرتی
جینے کا میرے مجھ سے سبب وہ پوچھتا ہے
فقط اسکی ذات میری خوشیوں کا محور ہے
خوش ہونے کا میرے مجھ سے سبب وہ پوچھتا ہے
وہ جانتا ہے اظہار کی عادت نہیں مجھ کو
اور تعلق کا میرے خود سے سبب وہ پوچھتا ہے
رہتا ہے آجکل وہ بہت دور دور مجھ سے
اداس رہنے کا مجھ سے سب وہ پوچھتا ہے
ہے آجکل بہت ہی وہ بدگمان مجھ سے اور
رونے کا مجھ سے سبب وہ پوچھتا ہے
ڈال کر اپنی عادت مجھ کو وہ دور جا رہا ہے
زندگی سے اکتانے کا امشال سبب وہ پوچھتا ہے