فکر انسان اور بےبسی
Poet: Mohammad shaukat mehmood By: Mohammad shaukat mehmood, Jhelumزمین و آسمان کی وسعتوں کومیں دیکھ تو چکا،لیکن
 ان کی حقیقت ہے کیا پتامجھ کونہیں
 
 سانسوں کا چلنا دل کا دھڑکنا میں دیکھ چکا لیکن
 یہ عمل ہے کیسے ممکن پته مجھ کو نہیں
 
 موت تو بظاہر عمل ہے میرے خود کے مرنےکا
 اسں میں پوشیده راز کیا،پته مجھ کو نہیں
 
 کوئلیں بلبلیں گنگناتی ہیں اس چمن میں لیکن
 ان کے دل میں ھوتا ہے کیا،پته مجھ کو نہیں
 
 دانے کے عمل کو تو میں جان چکا لیکن
 اس میں پوشیده زندگی ھے کیسے، پتہ مجھ کو نہیں
 
 میری آنکھ جو دیکھ رھی ھے،چمن کےنظاروں کو
 یہ سب تخلیق ھے کس کی،پتہ مجھ کو نہیں
 
 چمن کی زندگی کے چند سالوں میں دیکھ چکا لیکن
 آگے ھو گی زندگی کیسی،پتہ مجھ کو نہیں
 
 جنت جوتونے بنائی ہی،میرے لیے ہے
 میرے نہ ھونےسے وه ھوگی کیسے،پتہ مجھ کو نہیں
 
 آتے بھی اور جاتےبھی ہیں یہاں سے ہم
 آتےہیں کہاں سے اور جاتے ہیں کہاں،پتہ مجھ کو نہیں
 
 سوچ تو ٹکرا رہی ہے ان دیکھی حدوں سے،شوکت
 دیکھنا کیا چاہتا ہے،پتہ تجھ کونہیں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 