لیراں لیراں کر کے واپس ہٹ گیا تھا
ہمسائے کا کُتا مجھ کو پِٹ گیا تھا
گھر کے سارے برتن ستھرے ہوگئے تھے
لوسی کُتا آکے اِن کو چِٹ گیا تھا
حال احوال تو پوچھا دل کی بات جو کی
رابطہ یار سے موبائل پر کٹ گیا تھا
یار کے کوچے میں پھر گوڈا ٹوٹ گیا
دُشمن کوئی راہ میں ٹویا کھٹ گیا تھا
راستے میں سب قیدو آخر ہار گئے
دل کا لے کے یار سے میں پرمٹ گیا تھا
روڑی پر کچھ بچے بیٹھے کھاتے تھے
باسی پھل کے ٹکڑے کوئی سٹ گیا تھا