محبت کی باتیں بتائیں گے ہم
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbai, Indiaمحبت کی باتیں بتائیں گے ہم
عداوت کی باتیں مٹائیں گے ہم
دلوں کو جو جوڑے وہ ہی بات اب
تو سارے جہاں کو سکھائیں گے ہم
جو نفرت کی باتیں کرے گر کوئی
محبت سے اس کو منائیں گے ہم
کسی کو کسی سے نہ ہوگی خلش
دلوں کو دلوں سے ملائیں گے ہم
ہمارا مشن ہوگا انصاف کا
صداقت کا ڈنکا بجائیں گے ہم
نہ ہو فتنہ برپا جہاں میں کہیں
تو ایسی ہی دنیا بسائیں گے ہم
برائی پنپنے نہ پائے کہیں
اسی سے جہاں کو بچائیں گے ہم
یہ حسرت رہی ہے دلوں میں کہ اب
کسی کو کبھی نہ ستائیں گے ہم
دلوں میں جو خوفِ خدا ہے نہیں
اسی کو دلوں میں بٹھائیں گے
نگاہیں جمی ہیں جو اسباب پر
انہیں کو وہاں سے ہٹائیں گے ہم
بھروسہ ہمارا خدا پر ہی ہو
اسی پر نگاہیں جمائیں گے ہم
زباں ذکر سے تر ہماری رہے
دلوں کو بھی شاکر بنائیں گے ہم
یہ آہیں ہماری جو ہیں بے اثر
انہیں میں تو تاثیر لائیں گے ہم
جو بھٹکے کوئی راہ سے گر کبھی
اسے راہ سیدھی دکھائیں گے ہم
نہ محروم ہو اب کوئی علم سے
تو ایسا مشن اب چلائیں گے ہم
روِش اب میانہ روی ہی کی ہو
تو ایسے ہی جیون بِتائیں گے ہم
ہمارے جو باطن میں ہیں روگ اب
تو اصلاح ان کی کرائیں گے ہم
صداقت عدالت شجاعت کرم
یہ اوصاف دل میں سجائیں گے ہم
یہ دنیائے فانی لبھائے نہ اب
نہ جھانسے میں اس کے ہی آئیں گے ہم
نظر ہو گی اپنے ہی کرتوت پر
نہ انگلی کسی پر اٹھائیں گے ہم
یہ غفلت میں ڈوبی ہے جو زندگی
تو غفلت سے اب باز آئیں گے ہم
یہ ہی آرزو ہے ہماری کہ اب
شریعت کے تابع ہوجائیں گے ہم
یہی اثر کی بات دل کو لگے
دلوں کو بھی اب تو رِجھائیں گے ہم
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






