حسین ابن علی ظلم و جور کے سامنے
اک کوہ عزیمت بن گئے تھے
آل نبی کا گھر سارا قربان ہوا
مسکراتا چمن مہیب سناٹو ں کی زد میں آ گیا
سربریدہ لاشیں تپتی ریت پہ بکھری ہوئی تھیں
نوک سنا ں پہ سر تھے شہدا کے
بنت زہرا کے پردے کا اللہ ہی نگہبان
سارے خیمے آل نبی کے نذر آتش کر دیئے گئے
کربلا کے مظلوم قید کوفہ اور دمشق میں ہہنچے
تاریخ کے اوراق میں خوں سے لکھے یہ اوراق
آج بھی خون رلاتے ہیں
ہر دل پر خوف سا طاری ہے
ابن زیاد اور شمر اب بھی موجود ہیں
یزید چین سے اب بھی قصر شاہی پر
غاصبانہ طور پر قابض ہے
آج بھی حق گو سب کے سب معتوب ٹھہرائے جاتے ہیں
کلمہء حق کہنے والوں پر جیون بھاری ہے
فرات تیری روانی تو اب تک جاری ہے
حسین کی ذات
زینت گلستاں حسین کی ذات
روح کی راز داں حسین کی ذات
ہے ضیا بار پورے عالم پر
مانند کہکشاں حسین کی ذات
کربلا ایک استعارہ ہے
عزم و ہمت کا اک اشارہ ہے
بے کسوں کے لیے سہارا ہے
جبر کے سامنے ہو سینہ سپر
کربلا ای کاستعارہ ہے
تشنہ لب شیر خوار اور نوک سناں
بنت زہرا کا صبر سارا ہے
مشکیزہ ،تیر ،فرات اور عباس
آج تک جگر پارہ پارہ ہے