مری زباں پہ نئے ذائقوں کے پھل لکھ دے
مرے خدا تو مرے نام اک غزل لکھ دے
میں چاہتا ہوں یہ دنیا وہ چاہتا ہے مجھے
یہ مسئلہ بڑا نازک ہے کوئی حل لکھ دے
یہ آج جس کا ہے اس نام کو مبارک ہو
مری جبیں پہ مرے آنسوؤں سے کل لکھ دے
ہوا کی طرح میں بیتاب ہوں کہ شاخ گلاب
جو ریگزاروں پہ تالاب کے کنول لکھ دے
میں ایک لمحے میں دنیا سمیٹ سکتا ہوں
تو کب ملے گا اکیلے میں ایک پل لکھ دے