مری گلی کے غلیظ بچو
تم اپنے میلے بدن کی ساری غلاظتوں کو ادھار سمجھو
تمہاری آنکھیں
اداسیوں سے بھری ہوئی ہیں
ازل سے جیسے ڈری ہوئی ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ پیڑھیوں کی جمی ہوئی تہہ یہ کہہ رہی ہے
حیات کی آب جو پس پشت بہہ رہی ہے
تمہاری جیبیں منافقت سے اٹی ہوئی ہیں
سبھی قمیصیں پھٹی ہوئی ہیں
تمہاری پھیکی ہتھیلیوں کی بجھی لکیریں
بقا کی ابجد سے اجنبی ہیں
تمہاری قسمت کی آسمانی نشانیاں اب خطوط وحدانیت کا مقسوم ہو رہی ہیں
نظر سے معدوم ہو رہی ہیں
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے ماں باپ نے تمدن کا قرض لے کر
تمہاری تہذیب بیچ دی ہے
تمہارا استاد اپنی ٹوٹی ہوئی چھڑی لے کے چپ کھڑا ہے
کہ اس کے سوکھے گلے میں نان جویں کا ٹکڑا اڑا ہوا ہے
مری گلی کے غلیظ بچو
تمہارے میلے بدن کی ساری غلاظتیں اب گئے زمانوں کے ارمغاں ہیں
تمہارے ورثے کی داستاں ہیں
انہیں سنبھالو
کہ آنے والا ہر ایک لمحہ تمہارے جھڑتے ہوئے پپوٹوں سے جانے والے دنوں دنوں کی اتار لے گا
مری گلی کے غلیظ بچو
ضدوں کو چھوڑو
قریب آؤ
رتوں کی نفرت کو پیار سمجھو
خزاں کو رنگ بہار سمجھو
غلاظتوں کو ادھار سمجھو