مزدور کی آس
Poet: Haji Abul Barkat,poet By: Haji Abul Barkat,Poet/Columnist, Karachi ××××××
انتظار صبح میں جنکی رات گذر ہوتی ہے
انکی کہاں رات اور صبح کدھر ہوتی ہے
فکر معاش نے جگہ خواب کی لے لی انکی
جنکی ہر رات فاقوں میں بسر ہوتی ہے
صبح امید ہے مل جائے گا روزگار کوئی
تارے گن گن کے ایسے میں سحر ہوتی ہے
یہ ہے منڈی یہاں بکنے کو ہیں مزدور بہت
ہرکی سانس و للک آس کے گھر ہوتی ہے
کاش بک جائوں میں بوجھ اٹھانے کے لئے
مجھکو محنت کی نہیں روٹی کی فکر ہوتی ہے
دو پہر تیز ہے سر پے تپش تو کیا پرواہ
میری محنت بھوکے بچوں کے نذر ہوتی ہے
مٹی ہو یا پتھر ہو ، ہم تو نبٹ ہی لیتے ہیں
بھوک بچوں کی مزدور کے روبہ نظر ہوتی ہے
گر کوئی روزگار مسلسل ہو تو دن گنتے ہیں
کیونکہ صلہ پانے کی مدت سرد مہر ہوتی ہے
ہر تقاضے کو کسی تاریخ تک لے کے جاتے ہیں
راہ چلتے ہوئے بس مزدور کی اتنی قدر ہوتی ہے
لا متناہی منافع ، فیصد کی منافع خوری !
تیرے کھاتے میں جمع مزدور کی آہ مگر ہوتی ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






