مسافتیں تنہائیاں تم کیا جانو شام
سو رنگ ہمیں زندگی کے دیکھاتی ھیں
مہکتے پھولوں کو دیکھتے سمے اکثر
کہیں دور خیالوں مں کھ جاتے ھیں
سہارے وہ اجاڑ وادی ہے
جس میں صرف آس کے سائے منڈلاتے ھیں
زندگی کی بشارتوں سے دور بھاگ کر
لوگ مے خانوں میں چلے آتے ھیں
طلب و پیاس تو حیات ہے اپنی
طوفان اسے بھی مٹانے چلے آتے ہیں
سپنے بس سپنے ہیں کب اپنے ہوتے ہیں
شام یہ بھی آنکھوں کو دھوکا دے جاتے ھیں