مسرتوں پہ بھی قدغن ہے راحتیں بھی اسیر
گھٹی گھٹی ہے فضا اور مسئلے ہیں کثیر
ہے مفلسوں کے لیے عید کے بھی دن تلخی
تمام رسموں ،رواجوں کا لے مزہ تو امیر
یہ کیسا زہر سا گھلنے لگا سماج میں اب
یہ کیسا دور ہے اس پاک ملک میں یا رب !
یہ کیسے جرم ہیں اور کیسی یہ برائیاں ہیں
یہ سوچتا ہوں کہ سنوریں گے ہم جہان میں کب
عذاب آج ہے قدرت کا ہم پہ آیا ہوا
سحاب غم کا وطن پہ ہے کب کا چھایا ہوا
جو بیجتاہے وہی کاٹتا ہے ہر انساں
شجر یہ کانٹوں بھرا کس کا ہے لگایا ہوا ؟
وطن کی دیکھ کے حالت اداس رہتا ہوں
نظام بدلو یہاں حاکموں کو کہتا ہوں
غریب کی یہ صدا تم کو میں سناتا ہوں
“سہو وہ تم بھی جو میں ساری عمر سہتا ہوں“
میں زور بازو پہ سب کچھ بدل نہیں سکتا
خموش رہ کے بھی چاہوں تو مر نہیں سکتا
وطن کا میں کوئی حاکم نہیں ، ہاں شاعر ہوں
صدائے حق کے لگانے سے ڈر نہیں سکتا
مسرتوں پہ بھی قدغن ہے راحتیں بھی اسیر
گھٹی گھٹی ہے فضا اور مسئلے ہیں کثیر
ہے مفلسوں کے لیے عید کے بھی دن تلخی
تمام رسموں ، رواجوں کا لے مزہ تو امیر