مسکن ماہ و سال چھوڑ گیا
دل کو اس کا خیال چھوڑ گیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فرقت میں
وصل اس کا نڈھال چھوڑ گیا
عہد ماضی جو تھا عجب پر حال
ایک ویران حال چھوڑ گیا
جھالا باری کے مرحلوں کا سفر
قافلے پائمال چھوڑ گیا
دل کو اب یہ بھی یاد ہو کہ نہ ہو
کون تھا کیا ملال چھوڑ گیا
میں بھی اب خود سے ہوں جواب طلب
وہ مجھے بے سوال چھوڑ گیا