موجوں نے بھی سلامی انکو ہی دی
ورنہ ساحل پہ کھڑے تو ہم بھی تھے
وہ عجب ادا تھی انکی آنکھ چرانے کی
ورنہ آنکھوں میں ججتے تو ہم بھی تھے
روشنی ہر سو پھیلی ہوئی انکی تھی
شمع کی طرح جلتے تو ہم بھی تھے
رنگ تو ان کے ہی تھے ہر جانب
خوشبو کی طرح مہکتے تو ہم بھی تھے
بہت ہی مشکل ہو جاتا تھا ان کو جانچنا
حساب سے مشکل تو ہم بھی تھے
ہم سے لے گا کوئی ان کا ہاتھ
ان ہاتھوں کو تھامے تو ہم بھی تھے
چمک تو ان میں ہی نظر آتی تھی سبہی کو
شیشے کی طرح شفاف تو ہم بھی تھے
محفلوں کی رونق ان کے دم سے
اور منظورے نظر تو ہم بھی تھے