موت سے بچکر جام حیات پینے کو بھاگتا ھے
کیسا فوجی ہےزندگی جی کر بھی جینے کو بھاگتاھے
اپنے دور میں جو نہ سمجھا درد لوگوں کا
اب وہ لے درد سینے کو بھا گتا ہے
بہاکر خون مدنی کے چاہنے والوں کا لال میں
جا نے یہ اب کس مدینے کو بھا گتا ھے
مرے ڈاکٹر نہی قابل یا ملک میں علاج نہی
کیوں یھ تھام کر اڑن سفینے کو بھاگتا ھے
بابا کہتے ھیں مقافات عمل ھوتا ھے
کل بھگانے والا آج خود بھی تو جینے کو بھاگتا ھے
در کھلا ھے توبہ کا تو استغفار کر
دررب چھوڑ کر کہاں غیروں کےزینے کو بھاگتا ھے