خون سے رنگین ہیں بام و در دیس کے
بدلے ماتم کدوں میں شہر دیس کے
کوچہ بازار ویران و سنسان ہیں
خاک میں مل گئے ہیں فخر دیس کے
خوں میں لت پت ہیں سڑکوں پہ لاشے جواں
لاڈلے تھے جو نور نظر دیس کے
موت ہے خیمہ زن ہر گلی موڑ پر
راستے ہوگئے پر خطر دیس کے
خوف و دہشت کے سفاک سائے تلے
روز کٹتے ہیں شام و سحر دیس کے
بے ضمیروں کو طاقت ملی جب کبھی
روند ڈالے محلے نگر دیس کے
سنگ مرمر کے محلوں کی خاطر یہاں
غرق کر ڈالے مٹی کے گھر دیس کے
ظلم کے آگے سجدے کے منکر جو تھے
کاٹ ڈالے وہ شوریدہ سر دیس کے
خوں کے آنسو یہ دل کیوں نہ روئے اشہر
بد سے بدتر ہوئے ہیں حشر دیس کے