موسمِ حبس میں کیا سانس بھی لے گا کویٔ
زندگی دے گی اجازت ، تو بچے گا کویٔ
بے امانی کی ہے تلوار سروں پر لٹکی
کِس لیۓ رنگ بھرے خواب بُنے گا کویٔ
اِتنا آساں بھی نہیں دِل میں مکیں ہو جانا
دِل کے قابل جو ہوا ، دِل میں بسے گا کویٔ
آج ہر شخص یہاں مونہہ میں زباں رکھتا ہے
خامشی سے نہ ہر اِک ظلم سہے گا کویٔ
ہم نے چاہا ہے تجھے ٹوٹ کے یوں دنیا میں
کیا ترے بعد نگاہوں میں جچے گا کویٔ
ابھی منزل ہے بہت دور پڑاؤ کیسا ؟
ہم نہ رُک پایںٔ گے آوا ز جو دے گا کویٔ
کِس لیۓ رکھیں توقع ہی کسی سے آخر
دِل کے بدلے میں یہاں پیار نہ دے گا کویٔ
اب تو ہر ایک قدم رکھنے سے پہلے عذراؔ
سوچ لیتے ہیں کہ کیا ہم کو کہے گا کویٔ