مٹ گیا سارا زندگی کا شوق
کیا کروں اب میں اس گلی کا شوق
ہو گیا اس کو بیخودی کا شوق
تھا جسے بھی یہ دل لگی کا شوق
آدمی کو ہوا کجی کا شوق
مٹ گیا بندہ پروری کا شوق
جاں چھڑاتے ہیں لوگ محنت سے
پر سبھی کو ہے برتری کا شوق
دل چڑھا بھینٹ اس زمانے کی
گیا ہے تیری دوستی کا شوق
دیکھ اس راہ میں سنبھل کے چل
نہیں اچھا یہ ہر گھڑی کا شوق
مسکرا کے بھی کوئی بات کرو
نا مناسب ہے بے رخی کا شوق
سوز دل کے طفیل ہم کو ملا
روز و شب شعر و شاعری کا شوق
اب یہ رونا، نصیب ہے رومی
تھا تمہیں جو بہت ہنسی کا شوق