مہرباں ہو گئی ہَوا کیونکر
رات جلتا رہا دِیا کیونکر
مجھ سے روٹھا تھا ایک شخص تو پھر
شہر سارا لگے خفا کیونکر
سب کو معلوم تھا میں باغی ہوں
کس کو معلوم کہ ہوا کیونکر
لاکھ پردوں میں چھپ کے بیٹھا تھا
میں تجھے ڈھونڈتا خدا کیونکر
کس نے لکّھی تھی فطرتِ آدم
میں ہوا پیکرِ خطا کیونکر
خواب آنکھوں سے بہہ گئے سارے
کوئی تعبیر ہو بھلا کیونکر