بلبل پہ - برگ و گل پہ - نہ دشت و دمن پہ ہے
شاہین کی نگاہ تو سیدھی گگن پہ ہے
سازش نہ ہوتی اپنوں کی تو دب گئی تھی بات
ہر شخص کے جو آج زبان و دہن پہ ہے
اکتا کے زیست سے کئے الزام سب قبول
اب موت کیسی پاؤں یہ دار و رسن پہ ہے
حب وطن کا مجھ کو سبق دینے والے سن
میری تو جاء نماز بھی خاک وطن پہ ہے
اظہار بعد مرگ کیا ہے یوں پیار کا
جوڑے سے پھول لے کے سجایا کفن پہ ہے
نظریں وہیں پہ جا کے ٹک جاتی ہیں مری
چھوتا سا اک تل جو تمھارے دہن پہ ہے
سازش میں کامیاب ہوئے ایسے سب رقیب
الزام بے وفائی بھی آیا ‘حسن‘ پہ ہے