چبھ رہے ہیں دل ودماغ میں جو
سب سوالات تیروخنجر سے
ان سوالات کو سمیٹے ہوئے
اور ان کی سبھی چبھن لے کر
وہ خیالات جن کی سوزش سے
روح تک جسم میں چٹختی ہے
اور سینے میں سر پٹختی ہے
ان خیالات کی جلن لے کر
وسوسے ڈس رہے ہیں جو مجھ کو
جن کی پُھنکار دل کو ڈراتی ہے
جن کا پھن ہے دماغ میں پیوست
اور پکڑ جسم توڑے جاتی ہے
ان کی پھنکار اور پھن لے کر
لفظ جو لب پہ آنہیں سکتے
دل کی حالت دکھا نہیں سکتے
چپ ہیں، کچھ بھی بتا نہیں سکتے
سچ کا چہرہ دکھا نہیں سکتے
نیم جاں لفظوں کا بدن لے کر
زہرآلود ہوگئے ہیں لفظ
زہر میں تو پلا نہیں سکتا
ہوگئے خار میرے پھول سے لفظ
اور میں کانٹے چبھا نہیں سکتا
لفظ ریشم سے سنگ ہوتے ہوئے
اور میں پتھر اٹھا نہیں سکتا
لفظ اور ان کا کڑواپن لے کر
درد کی سب حکایتوں کے ساتھ
اپنی ساری شکایتوں کے ساتھ
جان لیتی اذیتوں کے ساتھ
روح کو کھاتی حالتوں کے ساتھ
اپنے اندر اتر رہا ہوں میں
زہر سے خود کو بھر رہا ہوں میں
آج اعلان کر رہا ہوں میں
یوں تو زندہ دکھائی دوں گا تمھیں
لیکن اے دوست!
مر رہا ہوں میں