میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے
تیرے گھر کے بادل برس کر بکھر گئے
میری شاخِ شجر کے پتے اتر گئے
تیرے پھول بھی کھل کر نکھر گئے
میری مٹی میں فراقِ ہجر گئے
مہک بنی ہوا تیری جدھر گئے
بھولِ آنکھ میں میری اشکِ تر گئے
آنسو بھی تیرے بن اَبر گئے
میری کھلتی کلی سے بھی ثمر گئے
تیرے گرتے بیج بھی بن شجر گئے
پیالہ میرے میں بھر وہ زہر گئے
کشکول تیرے میں ڈال اثر گئے
خاکِ سکوت میں خوف ٹھہر گئے
روحِ رواں میں تیرے مد و جزر گئے
میرے عشق میں بینا بھی تو نظر گئے
تیرے حسن کے تارے بن اطہر گئے
شکوہ نہیں رہ اب عزر گئے
رحمت سے بھی اب ہو احمر گئے
دبیز تہہ بھی اب بن راہ گزر گئے
رکتے شب میں دن میں سفر گئے
دل لگی رکھی تو چلے دلبر گئے
نظر سے جو چوکے تو قلب میں نشتر گئے
ڈھونڈتے ہم انہیں نہ جانے کدھر گئے
کچھ اِدھر تو کچھ رہ اُدھر گئے
نفرت نشاں رہ اب بشر گئے
شاھین کے دوست بن کبوتر گئے
بچاتے نہیں جو جل شرر گئے
قلم سے جب نکلے تو بن نشر گئے
کبود انعام سے بھی وہ مکر گئے
سانس لینے میں ہی وہ سجدہ شکر گئے
نام لینے سے جن کے جھک سر گئے
سجدہ میں ہی ان کے ہو بلند فخر گئے