وہی ہے عکس بظاہر مگر جدا کتنا
فریبِ حسن، سرِ آئینہ جچا کتنا
ہے مستعار ہراک سانس زندگی تیری
یہ قرض لے تو لیا ہے، ادا ہوا کتنا
یہ عاجزی مرے لہجے میں کب سے در آئی
میں آپ، بعدِ محبت بدل گیا کتنا
کبھی جو خود ہی خلافِ رضا چلا جائوں
تو سوچتا ہوں میں خود سے ہوں آشنا کتنا
ہوا نے جب مرے گھر کی کواڑ کو چھیڑا
نہ پوچھ شک ترے آنے کا پھر ہوا کتنا
رکھا ہے اس نے ابھی تک وہ جذبہٗ ناکام
یہ دل بھی اس سے زیادہ کرے، بتا کتنا
تلاشِ ذات میں منزل کسے ملی احسن
چہار سمت سو اپنے میں گھومتا کتنا