نگاہ و دل میں وہی کربلا کا منظر تھا
میں تشنہ لب تھی مرے سامنے سمندر تھا
بہت غرور تھا بپھرے ہوئے سمندر کو
مگر جو دیکھا مرے آنسوؤں سے کم تر تھا
ہمارے حصے میں آئی ہے ریت ساحل کی
کسی نے چھین لی وہ سیپ جس میں گوہر تھا
بہت سکون تھا ٹھہرے ہوئے سمندر کو
کہ اس میں جو بھی تھا طوفان میرے اندر تھا
وہ شخص آیا تھا اے شمعؔ لے کے موسم گل
اسے خبر ہی نہ تھی درد میرا زیور تھا