نہ ایسے پیار سے دیکھو کہ جاں نکلتی ہے
میں نہ کہوں تو مِرے منہ سے ہاں نکلتی ہے
بہت پُرانی ہے بنیاد اِس تعلق کی
جو راہ تیرے مِرے درمیاں نکلتی ہے
مجھے تو سارا مقدر کا کھیل لگتا ہے
بہار بعد میں اکثر خزاں نکلتی ہے
جہانِ عِشق میں اکثر یہ ہم نے دیکھا ہے
ہنسی کے پردے میں حسرت نہاں نکلتی ہے
وہ آہ بن کے کبھی لب پہ آ ہی جاتی ہے
ہمارے دِل سے جو برقِ تپاں نکلتی ہے
بلندیوں سے لگانا نہ قد کا اندازہ
کبھی کبھی تو زمیں آسماں نکلتی ہے
ہمارا دِل تو ہے مسکن ہی آرزوؤں کا
کب آرزو کوئی جانِ جہاں نکلتی ہے
پتہ لگائیں اگر ہم کسی کے ماضی کا
ہر اِک قدم پہ نئی داستاں نکلتی ہے
ذرا پرکھ کے تو دیکھیں ہم اپنی قسمت کو
کہ مہرباں ہے یا نا مہرباں نکلتی ہے