نہ جھگڑا ہوا، نہ ہم نے کوئی واسطے دیئے
سن کر اِک دوسرے کو ہم نے راستے دیئے
پوچھا نہ یہ کہ کیسے جیئنگے تمہارے بن
یہ بھی نہ کہہ سکے کہ مر جائینگے تیرے بن
حائل تھی بدگمانیاں رفاقت کی اُڑان پر
لیکن شکایتیں نہ تھی ہماری زبان پر
ہم جانتے تھے عہدگر نے نبھایا ہے اِک عمر
پھر دھرتے ایک دوسرے پہ تہمت کیونکر
اس نے بھی خاموشی کو سہارا بنا لیا
ہم نے بھی گریز تکلم کو پیارا بنا لیا
وہ بھی اُداسیوں میں مرجھا سہ گیا
میں بھی تشنگی کے دلدل میں دھنس گیا
نادم ہیں کارِ خیر کے اس فیصلے پر ہم
بچھڑے تو پھر جی نہ سکے دوبارہ ویسے ہم
ہاں! روایت سے ذرا مختلف محبت تھی ہمیں
شاید اِک دوسرے کی ضرورت تھی ہمیں