نہ کوئی رنگ، نہ خوشبو، نہ ذائقہ کوئی
نہیں ہے پانی کا پھر بھی مقابلہ کوئی
اے راہبر! ذرا دھیرے ، ہیں کارواں میں ضعیف
سفر ہے سخت ، بدل لے نا راستہ کوئی
بس ایک رسمِ جہاں ہے گلے لگا لینا
کہاں دلوں کا ہے آپس میں رابطہ کوئی
کسی کا عزمِ جواں لڑ گیا پہاڑوں سے
ہے ریزہ ریزہ چٹانوں کا سلسلہ کوئی
اے میرے رب ، اے مرے دوست، اے مرے وارث
نہیں ہے تیرے سوا میرا آسرا کوئی