کیوں میرے درد کو تم درد نہیں سمجھتے
میری بےبسی کو اپنی بےحسی نہیں سمجھتے
پریشان چہروں پر کرب کے آثار ہیں
کیوں اس کرب کو تم انتہا نہیں سمجھتے
جب غریب تنگ آکر گریبان چاک کرے گا
کیوں اس گھڑی کو تم انقلاب نہیں سمجھتے
بے رونق چہرے ہیں اور ویران دل
کیسے مسیحا ہو علاج نہیں سمجھتے
کارخانوں کے پہیے بند ہیں
تم ٹھنڈے چولہوں کی بجھی آگ نہیں سمجھتے
تم دریاؤں پر تو بند باندھ سکتے ہو
شاید آدمیوں کے سیلاب کو نہیں سمجھتے
بہت صبر آزما ہے تیرے وعدوں پر یقین
تم غریبوں کے صبر کی انتہا کو نہیں سمجھتے
نعروں کی سیاست سے غریبی نہیں مٹتی
تم معصوم آنکھوں کی حسرتوں کو نہیں سمجھتے