بشارت کا جب در وا ہوا
میں نے سوچا
پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں
واں کچھ بھی نہ تھا
جو مرا ہوتا
لہو پسینہ
جو مرا تھا
مرے رقیبوں ان کے بچوں
ان کے کتوں اور سؤروں کودرندگی‘ درندوں کی فطرت
حدت بخش رہا تھا
میں نے پھر سوچا
جنگلوں میں جا بسوں
درندوں کا وتیرا اپنا لوں
انسان تھا
جنگلوں میں کیسے جا بستا
محنت بنی آدم کا شیوا
دو فطراتیں
جنگل کا سینہ سما پاءے گا؟
کچھ نہیں کو چوم کر
میں نے
بشارت کا دروازہ بند کر دیا