وطن میں جب کبھی یومِ حساب آ ئے گا
لہو میں ڈوبا ہوا انقلاب آ ئے گا
یہ قوم اپنے لہو کا حساب مانگتی ہے
سوال یہ ہے کہاں سے جواب آ ئے گا
جمہوریت میں ورا ثت کا کھیل جاری ہے
نواب آ ئے گا ، ابن النواب آ ئے گا
وہ گھپُ اندھیرا ہے یارب کہ کچھ نہیں معلوم
کدھر سے سنگ کدھر سے گلاب آ ئے گا
چلی ہے رسمِ سیاست کہ ہر سیاست داں
جب آ ئے گا تو پہن کر نقاب آئے گا
کبھی تو جاگے گا غفلت کی نیند کا مارا
کبھی تو ہوش میں خانہ خراب آ ئے گا
لکھے گا وقت کہانی سنہرے حرفوں میں
تری کتاب میں ایسا بھی باب آ ئے گا
وہ وقت دور نہیں جب وطن کے چہرے پر
خدا نے چاہا تو رنگِ گلاب آ ئے گا
جو ہوگا پارسا کوئی تو اے وطن میرے
تری نگاہ سے پی کر شراب آ ئے گا
ہمیں خبر تھی کہ غربت میں ہو گی رسوائی
ہمیں پتہ تھا زمانہ خراب آ ئے گا