پیا محفل میں اُس کے ہاتھ سے، کیا تھا وہ کیا جانے
بقا جانے فنا جانے
ذرا پہلے لگانے سے خود اپنے ہاتھ سے گوندھی
رنگ جانے حِنا جانے
محفل میں سب کے سامنے کیا کہہ دیا اُس نے
حق جانے سزا جانے
یہ گل کا کام ہے پیدا کرے وہ خود میں رنگ و بو
مہک جانے فِضا جانے
جلا کے دل کو دھیمی آنچ میں پکائی یہ ہانڈی
وہ جانے مزا جانے
تلے قدموں کے رکھ دی اُس کے میں اب تو ضِد اپنی
صنم جانے اَنا جانے
وہ اِک ننھی سی لَو کی موت کیوں ہر روز ہوتی ہے
سحر جانے دیا جانے
اُٹھایا مجھ پہ خنجر خاموشی سے اُس نے یہ کہہ کر
روح جانے قضا جانے
یہ میرا سانس کیوں اندر نہیں آتا بتا ریاض
رب جانے ہوا جانے