دیکھا جو خون میں لت پت تڑپتا اک نوجوان سڑک پے
نجانے کیوں رک گیا بڑھا جب اٹھانے کو اسے
عوام کا اک سمندر تھا فلمسازی کے لیے وہاں
کیمرے میں دھیان تھا پلاتا کون پانی اسے
ہر رنگ کی گاڑی تھی وہاں رکی ہوئی
ہمت نہ ہوئی کسی کی اسپتال پہنچانے کو اسے
بظاہر تو کھلی تھیں سب کی آنکھیں وہاں
اندھا سا ہوگیا ہر کوئی دیکھ کے اسے
تڑپ تڑپ کے نکل گئی روح جب اس غریب کی
پگڑی تک اتار دی سب نے، ڈھانپنے کو اسے
ترس آگیا دیکھ کے اُس کو یوں بے بس
اپنی موت کا منظر نظر آگیا دیکھ کے اسے
یوں ہی اک دن تیرا بھی ہوجائے گا خاتمہ کاتب
کیا بتائے گا اپنے رب کو ہاتھ کیوں نہ لگایا اسے